BANANA
🍌🍌کیلے کی کاشت🍌🍌
کیلا لذیذ اور خوش ذائقہ پھل ہے جو پوری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے جدید تحقیق کے مطابق کچے کیلے میں زیادہ حیا تین پائے جا تے ہیں اور کوئی دوسرا پھل نمکیات اور غذائی کے اعتبار سے اسکا مدمقا بل نہیں ہے نیز اس کا فی ایکڑ پیداوار دیگر پھلو ں سے زیادہ ہو تی ہے دنیا میں کیلا پہلے پہل بعض تاریخی شواہد کے مطابق جزیرہ نماملایا یااس کے آس پاس بنگلا دیش کے ان جنگلی پودے کے صورت میں پا یا گیا جو مر طوب تھے پھر آہستہ آہستہ دنیا کے دوسرے گرم طوب علاقوں میں اس کی ا فزائش کی گئی اس وقت کیلا دنیا کے کئی ممالک میں کاشت ہورہا ہیں جن میں میکسیکو،ویتنام ،بھارت،ملایا،جنوبی اور مشرقی افریقہ ،نیوزی لینڈ، سپین ،پر تگال،گوئٹے ملا،برازیل کو سٹا ریکا،برٹش بنڈ یورس،ویسٹ انڈیز اور انڈو نیشیا شامل ہیں۔پاکستان میں کیلا زیادہ تر حیدر آباد ،ٹنڈو الہیار ،مٹیاری، نوشہرو فیروز،شہید بینظیر آباد، میر پور خاص،اور خیرپور، میں کاشت ہو تا ہے یہاں کیلے کی اعلی اقسام کاشت کی جاتے ہیں اس کے علاوہ صوبہ سندھ کے دوسرے اضلاع پنجاب اور سرحدی علاقوں میں بھی کیلا کاشت کیا جاتا ہے ہمار ے ملک میں کیلے کی فی ایکڑ پیدا وار دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے اگر ہمارے کا شت کار مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوض خا طررکھیں تو کیلے کے فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں ۔ (۱) آب وہوا (۲) ترقی یافتہ اقسام (۳) آبپاشی (۴) پھل کی تیاری (۵) گوڈی اور جڑی بوٹیوں کی تلفی (۶) بیماریوں کا تدارک (۷) زمین کا انتخاب اور تیاری (۸) افزائش پودوں کو سہارا دینا (۹) کھادوں کا متوازن استعمال (۱۰) بروقت برداشت (۱۱)
➖پیداوار➖
کیلے کی منافع کاشت کیلئے گرم مرطوب آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے یہ آب وہواخط استوا کے دونوں طرف واقع منطقہ ہائے حارہ میں پائی جاتی ہے کیلے کے منافع بخش کاشت کیلئے وہ علاقہ زیادہ موزوں ہیں جہاں کادرجہ خرارت ۲۷ ڈگری سینٹی گریڈ سے ۲۹ ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے اور یہ ۳۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاو ز نہ کرے نیز کبھی ۱۵ ڈگری سینٹی گرڈ سے کم بھی نہ ہو ان علاقوں میں سا لانہ اوسط بارش ۳۵سے ۴۰ انچ تک ہو تو زیادہ موزوں تصور کیلے جاتے ہیں اگر بارش کم ہو تو مصنوعی طریقہ سے پانی کا سپرے کیلے کی پیداوار اور کوالٹی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے صوبہ سندھ چونکہ سمندر کے نزدیک واقع ہے اور اس لئے ان علاقوں میں نمی کی شرح زیادہ ہونے سے کیلے کی کاشت کامیاب رہی ہے پاکستان میں آزادی کے بعد اسکی تجرباتی طور پر کاشت شروع کی گئی یہ صوبہ میں اتنی کامیاب رہی کہ اس کا شمار علاقہ کی نقد آور فصلوں میں ہونے لگا اور اس وقت یہ صوبہ سندھ کے بیشتر علاقوں میں کامیابی سے کاشت کیا جارہاہے۔
➖زمین کا انتخاب اور تیاری➖
زمین کا انتخاب اور تیاری کیلے کے لئے ہموار زرحیز اور میرا زمین جس میں 4 تا 5 فٹ کی گہرا ئی تک بہتر نکاس ہو اور اس میں نامیانی مادہ 1-1/2 سے 2 فیصد تک موجود زیادہ موزوں تصور کی جاتی ہے کلرّاور تھوڑ سے پاک زمین میں اس کی بہتر کاشت ہوتی ہے زمین کے تیاری سے پہلے راؤ نی کریں پھر گہرے ہل مثلاً راجہ ہل چزل اور ڈسک پلووعیرہ (جو آپ کی زمین کے لیے موزوں ہوں ) کی مدد سے زمین کو گہرائی تک کھولیں پھر روٹا ویٹریا سہاگہ کی مدد سے زمین کو نرم ہموار اور بھر بھر کر لیں یہ سارا کام جنوری کے مہینے میں مکمل کرلیں۔
➖ترقی یافتہ اقسام➖
دنیا میں کیلے کی سینکڑوں اقسام کاشت ہورہی ہیں لیکن پاکستان میں کاشت کی جانے والی اقسام بصرائی یا میر پوری،سلونکل،ولیم ہائبرڈ ،سفری چینی اور چمپا زیادہ مشہور ہیں لیکن ان سب اقسام میں بصرائی زیادہ کامیاب رہی ہے کیو نکہ اس کا پودا قد میں چھوٹا لیکن اس کی پھلیاں موئی گچُھے بڑے اور وزن دار ہوتے ہیں ایک نئی قسم ولیم ہائبرڈ بھی ہے جو بصرائی سے قدر ے بہتر پیداوار دیتی ہے بہر حال جن علاقوں میں کورے کا خطرہ نہ ہوں وہاں بصرائی اور ولیم ہا ئبرڈ اقسام کاشت کریں اور جن علاقوں میں کورے کا خطرہ ہو وہاں فلپائنی اقسام زیادہ موزوں تصور کی جاتی ہیں ۔
➖وقتِ کا شت➖
کیلا فروری مارچ اور اگست ستمبر کے مہینوں میں کاشت کیا جا تا ہے لیکن فصل اگانے کا بہترین وقت فروری سے مارچ تک ہے کیو نکہ اس فصل سے نومبر دسمبر تک30 سے 35 فیصدتک پہلی پیداوار لی جا سکتی ہے نیز اگست دسمبر میں کاشت کردہ پودوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔
➖افزائش➖
کیلے کی افزائش تما م دنیا میں ایک ہی طریقہ سے ہوتی ہے یعنی اسکی افزائش کے لئے جڑوں سے نکلے ہوئے زیر بچوں کو استعمال کیا جا تا ہے زیر بچوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم تلوار نما اور دوسرے کو جوڑے پتوں والے زیر بچے کہا جا تا ہے کیلے کے تلوار نما زیر بچوں کی کو نپل بہت جاندار اور جڑ موٹی ہوتی ہے اس کی نپلیں بڑے تنے کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں تلوار نما زیر
بچوں کو پتوں والے زیر بچوں پر تر جیح دی جا تی ہے کیو نکہ جوڑے پتوں والے زیر بچے پتوں کی نشوونما کے دوران خوراک کی زیادہ مقدار صرف کرتے ہیں جس سے پھل کو زیادہ خوراک نہیں مل پاتی جوڑے پتوں والے زیر بچے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جس وقت بڑے پودے کاٹ دےئے جا تے ہیں لہذا باغ لگاتے وقت زیر بچوں کے انتخاب میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے عام طور پر فروری مارچ میں لگائے گئے پودوں میں جولائی اگست کے مہینوں میں پھول آنا شروع ہوتے ہیں لیکن ان سے حا صل شدہ پھل بہت کم اور چھوٹے سائز کا ہوتا ہے جو اکثر گر جاتا ہے اور مادری خشک ہوجاتا ہے اس لیے ماہرین کی رائے کے مطابق ابتدائی پودے فصل حاصل کرنے کیلئے نہیں رکھنے چاہیے بلکہ ان مادری پودوں سے اپریل مئی میں نکلنے والے زیر بچوں سے ایک شمشیر نما پتوں والا صحت مندزیر بچہ چھوڑ کر باقی زیربچوں کو کاٹ دیں اس طرح ایک زیر بچہ مئی جون میں اور ایک جولائی اگست میں رکھ کر باقی سب زیر بچے کاٹ دیں یعنی ایک گڑھے میں صرف تین بچے پھل کیلئے رکھے جاتے ہیں۔ ان زیر بچوں کے انتخاب کیلئے درج ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں۔ (1) زیر بچے ایسے پودوں سے منتخب کیے جائیں جن سے اس سے پہلے ایک جیسی اور زیادہ پیداوار حا صل ہوچکی ہو اور ان کے گچُھے اور پھلیاں بڑی قا مت کی ہوں ۔ (2) زیر بچے ہمیشہ تندرست پودوں سے لینے چا ہےءں جن کے عمر6-4ماہ ہو بڑے زیر بچوں سے پھل جلدی آجا تا ہے لیکن گچُھے بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ (3) پودے نکلتے ہوئے اس بات کا خاص حیال رکھیں کہ مادری پودے کی جڑیں زخمی نہ ہوں زیر بچوں کو فورًا بونے ہفتے بعد نئی جڑیں اور کو نپلیں نکل آتی ہیں۔ (4) زیر بچے صحت مند یعنی کیڑوں اور بیماریوں سے پاک ہونے چا ہیے ۔ (5 ) چوڑی پتوں والے زیر بچوں کا انتخاب نہ کریں کیونکہ یہ دیر سے پھل دیتے ہیں اور ان کے کوالٹی بھی خراب ہوتی ہے۔
➖طریقہ کاشت➖
جنوری میں تیار شدہ زمین میں 6فٹ کے فاصلے پر 2x2x2 کے گڑھے سے گڑھے اور لائن سے لائن کافا صلے 6 فٹ ہوجائے گا ایک ایک میں 12یا10گڑھے بنیں گے گڑھوں سے نکالی ہوئی مٹی کو15 سے 20 دن کھلی فضامیں رکھیں تا کہ اس کو دھوپ اور ہوا اچھی طرح لگ جائے اور زمین میں موجود جراثیم وعیرہ ختم ہوجائیں پودا لگا نے سے قبل گڑھے میں ایک مٹھی ڈی،اے، پی، اور ایک مٹھی ایس،او،پی اور آدھی مٹھی 1تا2 انچ موٹی تہد چڑھا دیں
تا کہ پودے کی جڑیں براہ راست کھاد سے مس نہ ہوں یہ عمل کھیت کے تمام گڑ ھوں میں آ پنائیں اس طرح ایک ایکڑ میں تقریبا ایک بوری ڈی،اے،پی ایک بوری ایس، او، پی اور آدھی بوری یوریا استعمال ہوگی اس کے بعد پانی لگادیں تاکہ گڑھوں کی مٹی بیٹھ جائے اور گوبر کی کھاد گل سڑ جائے اس کے بعد ہر گڑھے میں ایک زیر بچہ رکھ کر اس کے چاروں طرف تقریبا 20 کلو گرام گوبر کی گلی سڑی کھاد کو مٹی کے ساتھ ملا کر گرھے کوبھر دیں اور پاؤں کی مدد سے مٹی اچھی طرح دبادیں تاکہ لگائے ہوئے زیر بچے ہلنے نہ پائیں اور بعد میں پودوں کو ہلکا سا پانی لگا دیں۔
➖آبپاشی➖
آبپاشی کیلے کی فصل کو دوسرے فصلوں کی نسبت پانی کی ضرورت زیادہ ہو تی ہے کیو نکہ بڑی پتوں کی وجہ سے پانی کا اخراج بزریعہ بخارات زیادہ ہوتا ہے پانی دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پانی دینے کے بعد جب زمین وتر کی حالت میں آجائے تو دوسرا پانی اور دے دیں اور یہ سلسلہ تواتر سے جاری رکھیں یا گرمیوں کے موسم میں ہر ہفتہ اور سریوں میں دو ہفتوں کے بعد آبپاشی کریں اور کبھی بھی فصل کو خشک نہ ہونے دیں مگر خیال رہے کہ کھیت میں زیادہ پانی نہ کھڑاہو یعنی زمین کو ہموار رکھیں۔کیلے کی فصل کو کُہر سے بچانے کے لئے دسمبر میں باغ میں شام کی وقت ہلکا پانی دیتے رہیں خیال رکھیں کہ باغ میں پانی کھڑا نہ ہونے پائے اس کے علاوہ کیلے کے خشک پتوں کو جلا کر رات کے وقت دھواں کریں اس طرح فصل کُہر سے محفوظ ہوجائے گی۔
➖کھادوں کا استعمال➖
پودوں کی بہتر اور اچھی پیداوار کے لئے کھادوں کا متناسب اور بروقت استعمال ضروری ہے کھادوں کے منافع بخش اور مؤثر استعمال کیلئے زمین تجزیہ کروائیں تا کہ زمین کے طبعی وکیمیائی خواص کا پتہ لگا یا جا سکے اس مقصد کیلئے آپ قریبی مٹی اور پانی کے تجزیہ کی لیبارٹریوں سے تجزیہ کرواکر کھادوں کی صیح مقدار اور طریقہ استعمال کے متعلق سفارشات حاصل کریں ۔اگر آپ نے تجزیہ اراضی نہیں کروایا تو منددرجہ ذیل عام سفارشات کے مطابق کیمیائی کھادیں استعمال کریں۔ نام
➖کھاد➖
پہلا سال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مئی سے اکتوبر
دیگرسالوں کی کھاد۔۔۔فروری سےاکتوبر
یوریا 3/4 بوری ہر ماہ
ایک بوری ہر ماہ ،ڈی،اے،پی
ایک بوری ہر ماہ ایس او پی
مندر جہ بالا شیڈول کے مطابق کھادیں پودوں کے قریب ڈال کر گوڈی کریں اور پانی لگا دیں چونکہ ہمارے اکثر زمینوں میں زنک اور پوران کی کمی موجود ہے لہذا ماہرین کی رائے کے مطابق کیلے کے لئے ہر چار ماہ بعد زنک 33 فیصد بحساب 6 کلو گرام کے حساب سے استعمال کرنے سے پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں علاوہ ازیں بوران کی کمی کو پورا کرنے کیلئے پوران بحساب 3 کلو گرام فی ایکڑ سال میں ایک مرتبہ استعمال کریں۔نامیاتی مادہ زمین کاایسا اہم جز ہے جوزمین کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ ہوتی چاہیے لیکن ہمارے بیشتر زمینوں میں نامیاتی مادہ ایک فیصد سے بھی کم ہے کیلے گوبر کی کھاد بحساب 10-8ٹن فی ایکڑ دسمبر مین استعمال کریں یہ زمین کے طبعی کیمیائی اور حیاتیاتی خواص کو بہتر کرنے ساتھ ساتھ کیمیائی کھادوں کی افادیت بڑھاتی ہے۔
گوڈی اور جڑی بوٹیوں کی تلفی:۔ گوڈی اور جڑی بوٹیوں کی تلفی کیلے کی زیادہ تر جڑیں زمین کی سطح کے قریب سے خوراک جزب کر تی ہیں جڑی بوٹیوں کے وجہ سے فصل کو خوراک لینے میں دشواری کاسامنا ریتا ہے لہذا کیلے کی فصل کو ابتدائی مراحل میں ہلکی ہلکی گوڈیاں کر کے جڑی بوٹیوں سے محفوط رکھیں بعد میں جب پودے بڑی ہوجاتے ہیں تو پوری زمین پر سایہ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ جڑی بوٹیاں خود بخود ختم ہوجاتے ہیں جتنی دیر تک ممکن ہو زمین کی اوپر والی سطح کو سخت نہ ہونے دیں کیونکہ زمین سخت ہونے کی صورت میں پودوں کی جڑیں کھاد اور پانی جذب نہیں کر پاتیں اہیں۔
➖پودوں کو سہارادینا➖
ایسے علاقے جہاں تندو تیز ہوائیں چلتی ہوں وہاں پودوں کے گر جا نے کے امکانات ہوتے ہیں جو کیلے کی فصل کیلئے بہت زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں اس لیے کہ کھیت کے چاروں طرف دیسی کیلے کے پودے لگادیں جوکہ قد میں بڑی ہوتے
ہیں اور پھلدار پودوں کوہوا کے دباؤ سے محفوظ رکھتے ہیں کیلے کے پودوں پر زیادہ پیداوار اپریل سے لیکر اکتوبر تک حا صل ہو تی ہے البتہ سردیوں میں پیداوار بہت کم ہوتی ہے کیلے کی پیداوار اسکی قسم اور طریقہ کاشت کے علاوہ زمین اور آب و ہوا کے مطابق ہوتی ہے۔
کیلے کے گچُھے اس وقت توڑے جائیں جب پھلیاں اپنی جنس کے مطابق تیز ہرے رنک کی ہو جائیں اور یہ پھلیاں موٹی اور گول ہوں گچُھے تو ڑنے کے بعد پھل کو پتوں سے ڈھانپ دیں تاکہ اس میں مناسب نمی موجود رہے پھل کو دوپہر کے وقت نہیں کاٹنا چاہیے۔
➖پھل کی تیاری➖
کیلے کے لئے پھل کی کٹائی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ اس کا پکا نا ہے کیو نکہ اس کے پکائی دوران کچھ کمی رہ جائی ہے گرم موسم میں کیلوں کو ڈبوں یا کریٹوں میں بند کر کے رکھ دیں تو چار سے چھ دنوں میں تیار ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس سردیوں میں کیلوں کو پکنے میں 8سے10دن لگ جاتے ہے اگر کیلوں کو جلدی پکا نا مقصود ہو تو پھلیوں کو نیم کے تازہ پتوں میں لپیٹ کر کریٹوں میں بند کردیں اگر کیلے کو بڑے پیمانے پر پکانا ہو تو کیلوں کے پتے گوبر اور بھوسے کا ہوا بند کمرے میں دھواں دیا جائے اس طریقہ سے موسم گرما میں 24گھنٹے بعد اور موسم سرمامیں 48گھنٹے بعد کیلا پک کرتیار ہو جاتا ہے اس کے علاوہ اور طریقوں سے بھی کیلا پکا یا جا تا ہے یعنی زمین میں ایک گڑھا کھود ا جائے اور کیلوں کو پتوں میں لپیٹ کر اس گڑھے میں رکھ دیا جا ئے اس کے بعد ایک اُلٹا گملا گڑھے کے مند پر رکھ کر باقی تمام راستے بند کر دےئے جا ئیں پھر گملوں کی تہہ میں موجود سوراخ کے راستے تک دھواں تین دن صبح شام دیں او ر مکمل ہونے پر پھل کو نکال کر کھلی ہوا میں رکھ دیں اس طرح یہ پھل پک جا ئے گا ۔
➖پیداوار➖
پہلے سال کی نسبت دوسرے سال میں پیداوار 4 گنازائد حا صل ہوتی ہے اور ایک جیسی رہتی ہے اچھی زمین مناسب منصوبہ بندی اور کھاد وں کے متوازن اور متنا سب استعمال سے کیلے کی فی ایکڑپیداوار کوموجودہ پیداوار سے کافی حد تک بڑھا نے کی گنجائش ممکن ہے۔
Envita Crop Sciences
➖➖کاشت سے برداشت تک ۔۔ کسان کے ھمسفر➖➖